اس تحقیق کے دوران 27 معاشروں کی بشریاتی (اینتھرو پولوجیکل) رپورٹوں اور حمل کے ابتدائی حالات و کیفیات کا جائزہ لینے سے واضح ہوا کہ ایسے سات معاشروں میں زچہ کی مذکورہ صبح کی متلی وغیرہ کی شکایات سرے سے موجود ہی نہیں تھیں۔ باقی کے 20میں سے ایک گروپ میں گوشت وغیرہ کا استعمال عام نہیں تھا بلکہ ان میں مکئی، چاول، شکرقندی، رتالو اور دیگر پودوں کا استعمال عام تھا جب کہ دوسرے گروپ میں دودھ کا استعمال زیادہ تھا یا پھر یہ لوگ مچھلی اور گوشت کھاتے تھے۔گوشت کھانے والی حاملہ خواتین کو ایک فائدہ یہ ضرور پہنچتا ہے کہ اس سے ان کے جنین کی پرورش اس کے پروٹین کی وجہ سے اچھی طرح ہوتی ہے، لیکن گوشت میں موجود جراثیم کا ہضم کرنا بھی ان کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے جس کی وجہ سے انہیں صبح کی متلی کی شکایت لاحق رہتی ہے۔ اس سے پہلے کی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ گوشت میں مرچوں، گرم مصالحوں اور اجوائن وغیرہ کے شامل کرنے سے گوشت کے جراثیم ہلاک ہو جاتے ہیں اور اسی لیے ان کا استعمال بھی کیا جاتا ہے۔ یہ استعمال خاص طور پر گرم آب و ہوا کے ملکوں میں عام ہے، کیوں کہ یہاں گوشت جلد خراب ہوتا ہے۔ مصالحوں میں موجود قدرتی زہر ان جراثیم کے لیے مہلک ثابت ہوتا ہے۔ حاملہ خواتین کے لیے بھی بہتر یہی ہے کہ وہ بغیر مصالحے کے پکے گوشت کے استعمال سے بچیں۔جنین کے اہم اعضا چھ سے چودہ ہفتے کے دوران بنتے ہیں اور یہی وہ وقت ہوتا ہے کہ جس میں ماں کا نظام مدافعت وقتی طور پر کمزور ہو جاتا ہے۔ اس عرصے میں جنین کو حمل کی دیواروں میں اپنے قدم اچھی طرح جمانے کا موقع مل جاتا ہے، لیکن اسی عرصے میں حاملہ مختلف جراثیم کے حملوں کا شکار بھی ہوسکتی ہے۔ چنانچہ اس دوران جراثیم آلود غذائوں کا استعمال اس کے لیے خطرہ صحت بن سکتا ہے جن سے اسقاطِ حمل کا خطرہ بھی لاحق رہتا ہے۔ جنین جونہی پہلی سہ ماہی میں مستحکم ہو جاتا ہے، گوشت کے کھانے سے نقصانات کے خطرات بھی کم ہو جاتے ہیں۔ اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ گوشت کا خوب اچھی طرح پکا ہوا ہونا بہت ضروری ہے۔ بھوننے، تلنے، ابالنے اور مصالحے شامل ہونے سے گوشت محفوظ ہو جاتا ہے کیوں اس طرح اس کے جراثیم ختم ہو جاتے ہیں۔ مصالحے ہضم کے نظام کو محفوظ رکھتے ہیں اور ان کے استعمال کے معاملے میں حاملہ میں یہ خصوصی صلاحیت بھی پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ مختلف طریقوں اور مصالحوں سے اپنی غذا تیار کرتی ہے اور نہ صرف یہ بلکہ دوسری خواتین کو بھی یہ ترکیب بتاتی ہے۔افریقہ بلکہ ایشیاءکے بعض معاشروں میں بھی خواتین مختلف قسم کی مٹی کھاتی ہیں۔ دراصل ان میں حمل کے ابتدائی مراحل میں لاحق ہونے والی اسہال کی شکایت (باقی صفحہ نمبر55 پر )
(بقیہ:گوشت کھانے والی حاملہ خواتین ضرور پڑھیں!)
روکنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ برصغیر میں بھی ملتانی مٹی کے علاوہ کوئلہ کھایا جاتا ہے۔ ہومیوپیتھی میں کاربویج کہلانے والے کوئلے میں معدے اور آنتوں کے زائد صفرا اور جراثیم جذب کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ نیورو بایالوجسٹ پال شرمن کے مطابق یہ مٹیاں، کوئلے وغیرہ آنت میں پہنچ کر زہریلے مادوں اور بیکٹیریا کو جذب اور سمیٹ لیتے ہیں اور یوں جنین ان کے نقصان سے محفوظ رہتا ہے۔ مٹی کھانے کی یہ خواہش گویا قدرت کی طرف سے جنین کو نقصان سے محفوظ رکھنے کا ایک قوی اشارہ ہوتی ہے۔ چینی مٹی ’’کاولین‘‘ بھی تو یہی اثر رکھتی ہے جسے اسہال روکنے کے لیے بہ کثرت استعمال کیا جاتا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں